Human Rights Watch


2023  میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی بحرانوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت  نےاپنے پیشروؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ذرائع ابلاغ، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور سیاسی مخالفین پر دباؤ ڈالا۔ حکام نے پرامن ناقدین کو ڈرانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی اور بغاوت کے ظالمانہ قوانین کا استعمال کیا۔ حکومت کی مدت اگست میں ختم ہوئی اور نگران وزیرِ اعظم انوار کاکڑ کی سربراہی میں عبوری حکومت نے اقتدار سنبھالا۔ قبل ازیں، نومبر میں طے شدہ انتخابات مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے نامکمل عمل کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے۔

مذہبی اقلیتوں کے خلاف مذہب کی بے حرمتی سے متعلق تشدد میں اضافہ ہوا  جس کی جُزوی وجہ حکومتی ظلم و ستم اور امتیازی قوانین ہیں، ۔ اسلامی عسکریت پسندوں کے حملوں، خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی) اور دولتِ اسلامی صوبہ خراسان( آئی ایس کے پی) نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جس کے باعث 2023 میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔

غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو معاشی بحران بھگتنا پڑا جس کا شمار ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں  میں ہوتا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی صحت، خوراک اور مناسب معیار ِزندگی کے حقوق پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کفایت شعاری اور مناسب معاوضہ جیسے اقدامات کے بغیر  بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف) کے اصرار پرسبسڈی کے خاتمے سے کم آمدنی والے طبقوں کے لیے اضافی مشکلات پیدا ہوئیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انتہائی غیر محفوظ رہا اور یہاں درجہ حرارت کی شرح عالمی اوسط سے کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے شدید موسمیاتی واقعات تواتر سے پیش آتے ہیں۔

ایک مثبت پیش رفت میں، حکومتِ سندھ نے 2022 کے سیلاب میں تباہ کن نقصانات اٹھانے والوں کی بحالیِ نو کی کوشش کی اور اُن لوگوں کو مکانات کی تعمیر کے لیے زمین دیاور فنڈز فراہم کیے جو پہلے بے زمین تھے۔ اگست کے اوائل تک،  21 لاکھ افراد اس پروگرام سے مستفید ہوئے تھے۔

اظہارِ رائے کی آزادی اور سول سوسائٹی  کی تنظیموں پر حملے

ذرائع ابلاغ کو ملنے والی حکومتی دھمکیوں اور اُن پر ہونے والے حملوں نے صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں میں خوف کا ماحول پیدا کیا جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے سنسر شپ اختیار کر لی۔ حکام نے ذرائع ابلاغ کے اداروں پر دباؤ ڈالا یا دھمکی دی کہ وہ سرکاری اداروں یا عدلیہ پر تنقید نہ  کیا کریں۔

سابق وزیرِاعظم عمران خان کی گرفتاری کے بعد کی  پُر تشدد کارروائیوں میں اُن کی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکان نے پشاور میں سرکاری نشریاتی ادارے ریڈیو پاکستان اور سرکاری خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے دفاتر پر حملہ کیا۔

11 مئی کو صحافی عمران ریاض خان کو اُس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ عمان جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ خان 25 ستمبر کو اپنے گھر واپس لوٹے  ۔ گرفتاری کے بعد سے اب تک انہیں عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

پاکستان کا بغاوت کا قانون، جو نوآبادیاتی دور کے برطانوی نظام کی پیداوار ہے، مبہم اور حد سے زیادہ وسیع ہے اور اسے اکثر سیاسی مخالفین اور صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ مارچ میں عدالتِ عالیہ لاہور نے بغاوت کے قانون کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ حکومت نے فیصلے کے خلاف عدالتِ عظمیٰ میں اپیل دائر کی جو کہ ابھی تک زیرِ التوا ہے۔ تاہم، حکام نے بغاوت کے مقدمات کا اندراج جاری رکھا۔ اگست میں، ایمان مزاری حاضر ایڈووکیٹ اور  سیاسی کارکن علی وزیرپر اسلام آباد میں تقریر کرنے پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ درج ہوا۔ بعد میں حاضر اور وزیر کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

اگست میں، پولیس نے پشتو زبان کے نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ دیوا (وی او اے دیوا) کے رپورٹر فیاض ظفر کو مجسٹریٹ کے حکم کے بعد گرفتار کر لیا۔ اُن پر الزام تھا کہ وہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عوام کی نظر میں "بدنام کرنے اور عوام کو اُکسانے کے لیے سوشل میڈیا پر بے بنیاد، جارحانہ اور نفرت انگیز مواد پھیلا رہے ہیں۔ ظفر کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔

این جی اوز نے سرکاری حکام کی طرف سے مختلف گروہوں کو ڈرانے، ہراساں کرنے اور اُن کی کڑی نگرانی کی اطلاع دی۔ حکومت نے پاکستان میں آئی این جی اوز کو ضابطے میں لانے کی پالیسی  کا استعمال بین الاقوامی انسانیت دوست تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں کی رجسٹریشن اور کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے کیا۔

مذہب اور عقیدے کی آزادی

حکومتِ پاکستان مذہب کی بے حرمتی کے قانون کی دفعات میں ترمیم  یا انہیں منسوخ کرنے میں ناکام رہی جو مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کے ساتھ ساتھ من مانی گرفتاریوں اور مقدمہ سازی کا بہانہ فراہم کرتی ہیں۔ ۔ توہینِ  رسالت کے لیے سزائے موت لازمی ہے، اور 2023 کے آخر پر، درجنوں افراد سزائے موت کے قیدی کی حیثیت سے جیلوں میں بند تھے۔ اطلاعات کے مطابق، 1990 کے بعد سے پاکستان میں کم از کم 65 افراد مذہب کی بے حرمتی کے الزامات پر مارے جا چکے ہیں۔

احمدی برادری کے ارکان توہینِ مذہب کے قوانین اور مخصوص احمدی مخالف قوانین کے تحت مقدمات کا نشانہ بنتے رہے۔ عسکریت پسند گروپ اور اسلامی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) احمدیوں پر "مسلمان ظاہر ہونے" کا الزام لگاتے ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان کی رو سے احمدیوں کا خود کو "مسلمان ظاہر کرنا" جرم ہے۔ 25 جولائی کو ایک ہجوم نے صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں احمدیوں کی عبادت گاہ میں توڑ پھوڑ کی۔ 18 اگست کو ایک ہجوم نے لاہور میں ایک احمدی پر توہینِ مذہب کا الزام لگا کر اُن کی فیکٹری پر حملہ کیا۔ حملہ آوروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی بجائے حکام نے احمدی برادری کے آٹھ افراد پر توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کر دیا۔

16 اگست 2023 کو سینکڑوں افراد نے صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد میں ایک مسیحی بستی پر حملہ کیا، جب برادری کے دو افراد پر "توہینِ مذہب" کا الزام لگایا گیا تھا۔ پتھروں اور لاٹھیوں سے مسلح ہجوم نے کئی گرجا گھروں، درجنوں گھروں اور ایک قبرستان میں توڑ پھوڑ کی۔ جب کہ پولیس نے حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں 130 افراد کو گرفتار کیا۔ مقامی باشندوں نے انسانی حقوق کے مقامی کارکنوں کو بتایا کہ حملے سے چند گھنٹے قبل، پولیس نے انہیں خبردار تو کیا کہ ایک ہجوم آ رہا ہے مگر اُسے روکنے کے لیے کچھ نہ کیا۔


خواتین اور لڑکیوں پر تشدد

خواتین اور لڑکیوں پر تشدد  بشمول جنسی زیادتی، قتل، تیزاب کے حملے، گھریلو تشدد، تعلیم سے محرومی، جائے روزگار پر ہراسانی، اور کم عمری کی شادی اور جبری شادی پورے پاکستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔ انسانی حقوق کے دفاع کاروں کا اندازہ ہے کہ ہر سال تقریباً 1,000 خواتین کو نام نہاد "غیرت کے نام پر قتل" کیا جاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کےادارہ برائے اطفال (یونیسیف) کے اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ نواسی لاکھ لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے اور 46 لاکھ کی 15 سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ بہت سی شادی شدہ لڑکیوں کو کم عمری میں خطرناک حمل پر مجبور کیا جاتا ہے اور ایسے حمل جن میں وقفہ بہت کم ہوتا ہے۔ مذہبی اقلیتی برادریوں کی خواتین خاص طور پر جبری شادی کا شکار ہیں۔ حکومت نے کم عمری کی اور جبری شادیوں کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔

 2 فروری کو اسلام آباد کے ایک پارک میں ایک خاتون کو بندوق کی نوک پر زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کے بعد ملک بھر میں غم و غصہ کی صورت حال کا مشاہدہ کیا گیا۔ دو ہفتے بعد اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا کہ دونوں مبینہ مجرم فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے جب پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی۔

ایک مقامی این جی او کے مطابق، صوبہ پنجاب میں، 2023 کے پہلے چار مہینوں میں پولیس کو خواتین پر تشدد کے 10,365 واقعات رپورٹ ہوئے۔ رپورٹنگ میں درپیش رکاوٹوں، نقصان دہ سماجی اقدار، اور پولیس کے غیر موثر اور منفی ردِعمل کی وجہ سے واقعات کی اصل تعداد  زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ پاکستان میں جنسی زيادتی کے واقعات میں سزا کی شرح 3 فیصد سے بھی کم ہے۔

بچوں کے حقوق

پاکستان میں پرائمری اسکول جانے کی عمر کے 60 لاکھ  جبکہ ثانوی تعلیم کے اسکول جانے کی عمر کے ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان کی اکثریت بچیوں پر مشتمل ہے۔  ہیومن رائٹس واچ کو معلوم ہوا ہے کہ لڑکیاں اسکولوں کی قلت،  تعلیم سے جڑے اخراجات، کم عمری کی شادی، نقصان دہ چائلڈ لیبر، اور صنفی امتیاز جیسی وجوہات کے باعث اسکول نہیں جاتیں۔

بچوں کو گھروں میں ملازم رکھنے کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ اسے ختم کرنے کو کوششیں بھی ہوئیں۔ جولائی میں، ایک 14 سالہ بچی رضوانہ کے واقعے نے، جو ایک جج کے گھر میں ملازمت کے دوران مہینوں تک وحشیانہ تشدد کا شکار رہی، نے گھریلو ملازمین کے ساتھ بدسلوکی کے معاملے کو اجاگر کیا۔ فروری میں، کراچی میں ایک 11 سالہ  گھریلو ملازم، قبول کو اُس کے آجر نے مار مار کر ہلاک کر دیا۔

بچوں کا جنسی استحصال اب بھی عام ہے۔ بچوں کے حقوق کی تنظیم ساحل نے 2023 کے پہلے 6 مہینوں میں پاکستان بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے روزانہ اوسطاً 12 سے زیادہ واقعات رپورٹ کیے ہیں۔

معذوریوں سے متاثر افراد کے حقوق

پاکستانی معاشرے میں دماغی صحت کے بارے میں آگاہی کا فقدان نفسیاتی معذوریوں سے متاثر افراد(ذہنی صحت کے مسائل سے دوچار لوگ) کے ساتھ بدسلوکی کا باعث بنتا ہے ۔ جو قیدی ذہنی صحت سے متعلق مدد مانگتے ہیں اُن کا اکثر مذاق اڑایا جاتا ہے اور  اُن کی خدمات سے انکار کیا جاتا ہے۔ جیل کے نظام میں دماغی صحت کے پیشہ ور ماہرین کی کمی ہے، اور جیل حکام عام طور پر دماغی صحت کی حالت کی کسی بھی رپورٹ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ نئے قیدیوں کے لیے نفسیاتی تشخیص غیر معیاری ہوتی ہے یا بالکل ہوتی ہی نہیں۔ ۔پاکستانی جیلوں میں قیدِ تنہائی سے نفسیاتی معذوری والے لوگوں کے لیے اضافی خطرات پیدا ہوتے ہیں۔

دہشت گردی، انسدادِ دہشت گردی، اور قانون کے نفاذ کے اہلکاروں کی زیادتیاں

ٹی ٹی پی، القاعدہ، بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، آئی ایس کے پی، اور ان سے منسلک تنظیموں نے سیکیورٹی اہلکاروں پر خودکش بم دھماکے اور دیگر بلا امتیاز حملے کیے ۔ ان حملوں کے نتیجے میں سال بھر میں سینکڑوں شہری ہلاک اور زخمی ہوئے۔ ایک پاکستانی تھِنک ٹینک، پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلِکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز(پی آئی سی ایس ایس) کے مطابق اگست میں 99 عسکریت پسند حملے ہوئے، جو کہ 2014 کے بعد اس مہینے میں ہونے والے حملوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

9  مئی 2023 کو سابق وزیرِاعظم عمران خان کی بدعنوانی کے الزام میں گرفتار ی کے بعد تشدد کا دائرہ پورے پاکستان میں پھیل گیا۔ خان کے بہت سے حامیوں نے پولیس افسران پر حملہ کیا اور ایمبولینسوں، پولیس کی گاڑیوں اور اسکولوں کو آگ لگا دی۔ جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا اُن میں راولپنڈی میں فوجی ہیڈ کوارٹر اور اعلیٰ فوجی حکام کے گھر شامل ہیں۔ جھڑپوں کے بعد، پولیس نے خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے ہزاروں ارکان کو دھونس و دھمکیوں کا مظاہرہ کرنے، ہنگامہ آرائی کرنے اور سرکاری اہلکاروں پر حملے کے الزام میں گرفتار کر لیا۔ بہت سے لوگوں پر ایسے مبہم اور حد سے زیادہ وسیع قوانین کے تحت مقدمے درج کیے گئے جو کہ فسادات اور بد امنی پیدا کرنے سے منع کرتے ہیں۔ فوجی تنصیبات کو توڑنے اور ان میں گُھسنے جیسے جرائم پر ملزموں کے خلاف فوجی عدالتوں میں قانونی کارروائی کی گئی جو کہ اور منصفانہ ٹرائل کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

جنسی رجحان اور صنفی شناخت

پاکستان کے ضابطہ فوجداری کے تحت مردوں کے درمیان جنسی تعلق جرم ہے جس کی وجہ سے  مردوں اور خواجہ سراؤں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے والے مردوں کو پولیس کی بدسلوکی، تشدد اور امتیازی سلوک کے خطرے کا سامنا رہتا ہے۔

پاکستان, بالخصوص خیبر پختونخوامیں خواجہ سراء خواتین حملوں کی زد میں رہیں۔ مئی میں، وفاقی شرعی عدالت نے فیصلہ دیا کہ خواجہ سراء ایکٹ 2018 کی دفعات جو کہ خواجہ سراؤں کو صنفی شناخت طے کرنے کا حق دیتی  اور ان کے وراثت کے حق سے متعلق ہیں "غیر اسلامی" ہیں۔ اس فیصلے سے خواجہ سراء برادری میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سال کے آخر تک عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ التوا رہی۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن، جو کہ ایک خود مختار قانونی ادارہ ہے، نے پولیس کو خواجہ سراؤں کو ہراساں کرنے اور گرفتار کرنے سے باز رہنے کی ہدایت کی۔ ہدایت نامے میں کہا گیا کہ غربت اور بے گھری سے متعلق جرائم کو جرائم کی فہرست سے نکالا جائے۔ یہ صوبہ سندھ میں امتیازی قوانین، پالیسیوں اور عوامی رویوں میں بہتری کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

مہاجرین

اکتوبر میں، حکومت نے "غیر قانونی تارکینِ وطن" کو ملک چھوڑنے کے لیے 28 دن کی مہلت دی تھی، اور خبردار کیا تھا کہ بصورت دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انہیں زبردستی ملک بدر کریں گے۔ پاکستانی حکام کے مطابق ملک میں17 لاکھ 30 ہزارغیر رجسٹرڈ افغان مقیم ہیں۔ حکومت نے افغانوں کو زبردستی ملک بدر کرنے کے فیصلے کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے درست قرار دیا کہ 2023 میں پاکستان میں ہونے والے زیادہ تر خودکش بم حملوں میں افغان شہری ملوث تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق (یو این ایچ سی آر) نے اس کے ردِعمل میں کہا کہ مہاجر ین کی وطن واپسی رضاکارانہ اور بغیر کسی دباؤ کے ہونی چاہیے تاکہ خطرات میں گھرے مہاجرین کا تحفظ یقینی ہو سکے۔" اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے آزاد ماہرین نے بھی ان اطلاعات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں افغان باشندوں کو گرفتاریوں، استحصال اور غیرمعمولی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

2023  میں، پاکستانی حکام نے پاکستان میں رہنے والے افغانوں کو ڈرانادھمکانا اور ہراساں کرنا جاری رکھا۔ غیر  رجسٹرڈ افغان پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی بدسلوکی کا شکار رہے اور انہیں روزگار اور تعلیم تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

معاشی و سماجی حقوق

2023  میں، مقامی کرنسی کی قدر میں کمی، آسمان کو چھوتی مہنگائی، اور مناسب معاوضہ جیسے اقدامات کے بغیر بجلی اور ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے نے پاکستان میں بہت سے لوگوں کے لیے اپنے معاشی و سماجی حقوق کا حصول مشکل بنا دیا۔ پاکستان کے مرکزی بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر جنوری میں کم ہو کر 3 ارب امریکی ڈالر کی تاریخی کم ترین سطح پر آگئے۔ یہ رقم تین ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی کے لیے بھی نا کافی تھی۔ جولائی میں، پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس کے تحت حکومت نے توانائی اور ایندھن کی سبسڈی ختم کرنے، منڈی پر مبنی شرح مبادلہ رائج کرنے اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری لی۔ اس کے نتیجے میں بجلی کے بڑھتے بِلوں، مہنگائی، اور خوراک کی قلت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔

معاشی بحران نے ملک کو اُس وقت اپنی لپیٹ میں لیا جب لوگ پہلے سے 2022 کے سیلاب  کے تباہ کن معاشی اثرات کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ 2018 میں پاکستان کے 23 کروڑ افراد میں سے تقریباً 37 فیصد کو غذائی عدمِ تحفظ کا سامنا تھا، اس کے باوجود صرف 89 لاکھ خاندانوں کو مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کے لیے امداد ملی۔

ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے اجراء کے بعد جس میں معذوریوں سے متاثر قیدیوں سمیت پاکستانی جیلوں میں بند دیگر قیدیوں کو صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو قلمبند کیا گیاتھا، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے لاہور سنٹرل جیل میں صفائی ستھرائی اور صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری اقدامات کا حکم دیا۔ ان میں ایک مخصوص ہسپتال کی تعمیر بھی شامل ہے۔ انہوں نے ملک بھر کی جیلوں میں اصلاحات متعارف کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔

ہراسانی کے خلاف تحفظ کے وفاقی محتسب سیکرٹریٹ کے مطابق، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جائے روزگار پر جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس سے خواتین خاص طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ جائے روزگار پر جنسی ہراسانی کے واقعات کے باوجود، حکومت نے عالمی ادارہ محنت کے تشدد و ہراسانی کی روک تھام کے معاہدے (سی 190) کی توثیق نہیں کی، جو جائے روزگار پر صنفی تشدد سمیت ہر قسم کے تشدد اور ہراسانی کے خاتمے کے لیے مکمل اقدامات کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔

اہم عالمی کردار

جولائی میں، یورپی یونین نے پاکستان کی جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس (جی ایس پی پلس) اسٹیٹس میں مزید چار سال کی توسیع کی تجویز پیش کی، جس سے پاکستان تجارتی ترجیحات اور یورپی منڈی تک رسائی سے مستفید ہوسکے گا۔

جولائی میں، ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن اور پاکستانی وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے ملاقات کی، جس میں پاکستان-امریکہ تعلقات میں "مثبت رفتار" کا مشاہدہ کیا گیا اور "امن، سلامتی اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے تعمیری میل جول جاری رکھنے" پر اتفاق کیا گیا۔

جولائی میں ہی ہیومن رائٹس واچ نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیل کے طویل قبضے کے قانونی نتائج کے بارے میں عالمی عدالتِ انصاف (آئی سی جے) سے رجوع کرے۔ اگست میں، پاکستان نے اس موضوع پر  آئی سی جے سے با ضابطہ رجوع کیا تھا۔

پاکستان اور چین نے 2023 میں اپنے وسیع تر اقتصادی و سیاسی تعلقات کو مزید مستحکم کیا، اور چین - پاکستان اقتصادی راہداری پر کام جاری رہا۔ یہ منصوبہ سڑکوں، ریلوے اور توانائی کی پائپ لائنوں کی تعمیر پر مشتمل ہے۔

 

Comments

Popular Posts